" اور میں ہوں"
"جنوںِ کارگر ہے اور میں ہوں ہیاتِ بے خبر ہے اور میں ہو ںمٹا کر دل نگاہِ اوّلین سے تقاضائے دیگر ہے اور میں ہو ںنگاہِ اوّلین سے ہو کے برباد تقاضائے دیگر ہے اور میں ہو ںکہاں میں آ گیا اے زورِ پرواز وبالِ بال و پر ہے اور میں ہو ںمبارک باد ایامِ اسیری غمِ دیوار و در ہے اور میں ہو ںتیری جمعیتیں ہیں اور تو ہے ہیاتِ منتشر ہے اور میں ہو ںکوئی ہو سست پیمان بھی تو یوں ہو یہ شامِ بے سحر ہے اور میں ہو ںنگاہِ بے مہابا تیرے صدقے کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہو ںٹھکانا ہے کچھ اس عذرِ ستم کا تیری نیچی نظر ہے اور میں ہو ںفراق اک اک حسرت مٹ رہی ہے یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں"